Monday, August 24, 2009

بگٹیوں کا انتظار



’ہمارے بچے بھی پریشان ہیں۔ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے‘

تین سال قبل ڈیرہ بگٹی میں فوجی آپریشن اور بگٹی قبائل کے درمیاں لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہونے والے دس ہزار کے قریب بگٹی خاندان جو نصیر آباد اور ڈیرہ مراد جمالی میں عارضی طور پر آباد ہوئے تھے، ان میں سے زیادہ تر لوگ اب واپس جاچکے ہیں۔

کوئٹہ جانے والی شاہراہ اور ریلوے لائن کے درمیاں ڈیرہ اللہ یار سے ڈیرہ مراد جمالی تک چند ماہ پہلے تک تو سینکڑوں جھگیاں نظر آتی تھیں جہاں ’مہاجر بگٹی‘ آباد تھے، لیکن اب وہاں بیس سے پچیس خاندان باقی بچ گئے ہیں اور دیگر لوگ اپنی جھگیاں اکھاڑ کر جا چکے ہیں۔

مقامی بگٹی لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی’مہاجر بگٹی خاندان‘ ڈیرہ بگٹی کے شہر سوئی اور دیگر علاقوں میں چلے گئے ہیں۔ ان کے مطابق نواب اکبر بگٹی کی جان نشینی کے دعویدار نواب عالی بگٹی دربدر ہونے والے بگٹیوں کی سرپرستی کر کے انہیں اپنے آبائی ضلع میں واپس آنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

ڈیرہ اللہ یار کے مقامی صحافی سارنگ مستوئی کا کہنا ہے کہ کچھ بگٹی خاندان ایسے بھی ہیں جنہیں نواب عالی بگٹی کے حامی زبردستی سوئی لے گئے ہیں اور انہیں اپنی نوابی تسلیم کروائی ہے۔

ان کے مطابق بگٹی قبیلہ اب تین حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔’بظاہر تو زیادہ تر بگٹی خاندان نواب عالی کے ساتھ ہیں لیکن نوابزادہ برہمداغ بگٹی کے حامیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے اور چند بگٹی خاندان طلال بگٹی کے بھی حامی ہیں۔‘

بظاہر تو زیادہ تر بگٹی خاندان نواب عالی کے ساتھ ہیں لیکن نوابزادہ برہمداغ بگٹی کے حامیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے اور چند بگٹی خاندان طلال بگٹی کے بھی حامی ہیں

سارنگ مستوئی

ڈیرہ اللہ یار کے قریب سڑک کنارے چالیس سے پچاس سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت کے دوران بغیر بجلی اور کسی بنیادی سہولت کے آباد بگٹیوں میں ایک ستر سالہ جمعہ خان بگٹی بھی ہیں۔ سفید ریش جمعہ خان سے جب پوچھا کہ وہ اپنے نئے نواب عالی خان بگٹی کے ساتھ سوئی کیوں نہیں گئے تو انہوں نے کہا کہ ’ہم غریب لوگ ہیں کوئی مالکی کرنے والا نہیں۔۔ جب فوج واپس جائے گی اور برہمداغ بگٹی واپس آئیں گے اور امن قائم ہوگا تو ہم بھی واپس جائیں گے۔‘

جب ان سے پوچھا کہ کیا نواب عالی ان کی سرپرستی نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کہ وہ بھی ان کے نواب ہیں اور برہمداغ بھی ان کے نواب ہیں۔ ’عالی اور برہمداغ ہمارے لیے اپنی دو آنکھوں کے برابر ہیں۔‘ ان کے ہمراہ لاشار خان اور غازی بگٹی سے بھی ملاقات ہوئی اور وہ بھی جمعہ خان کے ہم خیال تھے۔

ان کی جھگیوں کے قریب ہی ایک بیٹھک بھی ہے جو اُجڑی نظر آئی۔ ڈیرہ بگٹی ضلع کے علاقے سنگسیلا سے تعلق رکھنے والے لاشار خان نے بتایا کہ ’ہماری بیٹھک میں نواب اکبر بگٹی، برہمداغ اور عالی بگٹی کی تصاویر لگی تھیں اور اس کے اوپر بلوچستان ریپبلکن پارٹی کا پرچم لگا تھا۔۔ جس پر پولیس والے ناراض ہوئے اور انہوں نے ہماری بیٹھک اکھاڑ دی ہے۔‘

ان سے بات چیت جاری تھی کہ وہاں سے ریل گاڑی گزری اور پولیس کی ایک گاڑی بھی اس موقع پر ریلوے لائن کے قریب کھڑی نظر آئی۔ مقامی صحافی سارنگ مستوئی نے بتایا کہ پولیس کو شبہہ ہے کہ بجلی کے پول اور ریل کی پٹڑی پر دھماکوں میں برہمداغ کے حامی بگٹی ملوث ہیں اور اب جب ریل گاڑی گزرتی ہے تو جہاں جہاں ریلوے لائن کے قریب بگٹی آباد ہیں وہاں پولیس کی گاڑیاں حفاظت کے لیے کھڑی ہوتی ہیں۔

ہماری بیٹھک میں نواب اکبر بگٹی، برہمداغ اور عالی بگٹی کی تصاویر لگی تھیں اور اس کے اوپر بلوچستان ریپبلکن پارٹی کا پرچم لگا تھا۔۔ جس پر پولیس والے ناراض ہوئے اور انہوں نے ہماری بیٹھک اکھاڑ دی ہے

بگٹی قبائیلی

پچیس سالہ نوجوان شاہ بخش بگٹی اس تاثر کو رد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’ ہم غریب کاشتکار ہیں۔۔ محنت مزدوری کرتے ہیں۔۔ پولیس خوامخواہ تنگ کرتی ہے۔ ہمارے عزیز ہیں جواں سال بگٹی، انہیں پولیس نے دہشت گردی کے جھوٹے کیس میں چالان کردیا ہے۔‘

جواں سال بگٹی کی بوڑھی والدہ شر بی بی اور بہن شانی بی بی سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ’ہم بہت پریشان ہیں، جواں سال محنت مزدوری کرتے تھے لیکن پولیس نے انہیں سزا دلوائی ہے۔ اب ہمارا کمانے والا بھی کوئی نہیں۔ ہمارے بچے بھی پریشان ہیں۔ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔‘

شاہ بخش نے کہا کہ ’مشرف کے دور میں فوجی آپریشن سے تنگ ہوکر ڈیرہ اللہ یار آئے۔ ہماری بکریوں کا ریوڑ تھا، غربت کے مارے ہم وہ بیچ کر کھا گئے۔ اب چند گائے بچی ہیں۔‘


بگٹیوں کی جھونپڑیاں

جب ان سے پوچھا کہ نئی حکومت آئی اس نے آپ لوگوں کے لیے کچھ کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے یہ اچھا کیا کہ مشرف کو نکال دیا کیوں کہ ہم مشرف کی وجہ سے دربدر ہوئے۔ مشرف کے دور میں کچھ این جی او والے ہماری مدد کے لیے آئے تو خفیہ ایجنسیوں والوں نے انہیں بھگا دیا۔ اب نئی حکومت آئی لیکن ہماری کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔‘

بے گھر ہونے والے ان بگٹیوں کے زیادہ تر بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ تیرہ سالہ جمال بگٹی نے بتایا کہ تین سال قبل وہ سنگسیلا میں ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا لیکن ڈیرہ اللہ یار میں جب وہ سکول گئے تو سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں داخلہ نہیں ملا اور وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔

بظاہر انتہائی کسپمرسی کی حالت میں رہنے والے ان بگٹیوں کے حالات تو خراب ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے پاس موبائل فون بھی نظر آئے اور ہماری وہاں موجودگی کے دوران کئی کو کئی بار فون پر بات کرتے بھی سنا۔

No comments:

Post a Comment